Qasasul e Ambiya قصہ حضرت آدمؑ

Hazrat Adam



قرآن مجید میں میں مختلف مقامات پر پر حضرت آدم علیہ السلام  کی پیدائش کا 
 ذکر
  


" اور جس وقت تیرے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ بے شک میں زمین میں  اپنا ایک نائب  بنانے والا ہوں ہو تو فرشتوں نے عرض کیا کہ( اے ہمارے رب )کیا تو ایسے شخص کو نائب بنا ئے گا جو زمین میں فساد کرے گا  اور خونریزی کرے گا ۔حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ ساتھ تیری خوبی اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں اللہ تعالی نے فرمایا کہ جو میں اس میں مصلحت جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے "


 اور اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام دنیاوی چیزوں کے نام سکھا دئیے پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ مجھے ان چیزوں کے نام بتا دو   اگر تم سچے ہو ۔فرشتوں نے عرض کیا ( اے اللہ) تو پاک ہے ہمیں ان چیزو ں کے نام معلوم نہیں ہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھا دیا بے شک تو ہی بڑے علم والا  اور بڑی حکمت والا ہے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا:کہ  اے آدمِؑ تم ان کو ان چیزوں کے نام بتاؤ ۔پس جب آدم علیہ سلام نے فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتالا دیئے تو اللہ پاک نے فرمایا کیا میں نے تمہیں کہا نہیں تھا  کے کہ تحقیق میں آسمانوں اور زمینوں کے غیب  جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو-
  

ابلیس کا سجدے سے انکار


اور جب اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کیا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھا تھا وہ کافروں میں سے اور ہم نے حضرت آدم ؑ سے کہہ دیا کہ تم اور تمہاری بیوی بہشت میں ٹھہرو اور جہاں سے سے چاہو بہشت کے رزق سےکھاؤ۔اور اس درخت کے قریب مت جانا اگر تم اس کے قریب گئے( یعنی اسے کھا لیا) تو ہوجاؤگے ظالموں میں سے ۔پس 

شیطان نے دونوں کو پھسلادیا   اور جنت

سے( جس میں وہ تھے) نکلوا کر چھوڑا۔ پھر ہم نے ان کو حکم دیا کہ اس بہشت سے اتر جاؤ۔ تم ایک  دوسرے کے دشمن ہواور  تم کو زمین میں ایک مقررہ وقت تک رہنا ہے اور فائدہ اٹھانا ہے ۔پس آدم علیہ السلام اپنے رب سے چند (دعائیہ) کلمات سیکھ لیے اللہ نے ان کی غلطی کو معاف فرما دیا ۔اور اللہ تعالی معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے ۔
 ہم نے کہا  کہ تم سب کےسب اس بہشت سے اتر جاؤ  پس اگر میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے (تو اس پر چلنا) اور جو میری ہدایت پر چلیں گے تو ان پر کوئی ڈر نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اور جو لوگ میری نافرمانی کریں گے اور میری آیات کو جھٹلائیں گے وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔

اور اللہ عزوجل نے فرمایا :




"بے شک حضرت عیسی علیہ السلام کی مثال آدم علیہ السلام کی طرح اللہ نے اس کو مٹی سے پیدا کیا پھر اس کو کہا کہ (آدم )ہوجا پس وہ (آدم )بن گیا "
اور اللہ تعالی نے فرمایا:




"اے لوگو اپنے رب سے ڈرتے رہو جس رب نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں (آدمؑ اور حواؑ) سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس کے (واسطہ کے) ساتھ  تم آپس میں ایک دوسرے سے سوال 
کرتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بچو اللہ تم پر نگہبان ہے۔






اے لوگو !تحقیق ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم میں قومیں اور  خاندان بنا د یئے  تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو 
پہچان سکو  بیشک تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ معزز اور مکرم وہ ہے جو تم سے زیادہ پرہیزگار ہے"۔





 " اللہ وہ ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر اس نے اس کی بیوی بنائی تاکہ وہ اس کے ذریعے سے سکون حاصل کرے"۔





" اور تحقیق   ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری شکلیں بنائیں پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے سجدہ کرنے والوں میں سے نہ تھا اللہ تعالی نے فرمایا :اے ابلیس تجھے کس چیز نےسجدہ کرنےسے روکرکھا  ہے جب کہ میں نے تجھے اس کا حکم دیا ہے (ابلیس نے کہا)کہ میں اس( آدم) سے بہتر ہوں تو  نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ تو اس سے اتر جا تجھے یہاں انکار کرنے اور بڑا ئی کرنے کا کوئی حق نہ تھا پس نکل جا بے شک تو ذلیلوں  میں سے ہے ابلیس نے کہا   مجھے مرنے کے بعد اٹھائے جانے کے دن تک مہلت دیدے۔اللہ تعالی نے فرمایا کہ تجھے مہلت دے دی گئی ہے۔ ابلیس نے کہا جب تو نے مجھے گمراہ کر دیا ہے تو میں تیرے سیدھے راستے پران کی تاک میں بیٹھوں گا پھر ان کے پاس ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں اور بائیں جانب سے آؤںگا اور تو ان میں بہت سوں کو شکر گزار نہیں پائے گا "۔

اللہ تعالی نے فرمایا :تو ذلیل اور مردود ہو کر یہاں سے نکل جا ان میں سے جو تیری راہ پر چلیں گے تو میں (تجھ سے اور ان سے) تو تم نے جہنم کو بھر دوں گا اور اے آدم تو ادر تیری  بیوی جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔پس شیطان  نےان  دونوں کو کو وسوسہ ڈالا بہکایا  ( اس کا مقصد یہ تھا)کہ  ان کے لئے ان کی چھپی ہوئی شرم  گاہوں کو ظاہر کر دے اوراس نے کہا کہ  تمہارے  رب نے اس درخت  سے اس لئے  منع کیا ہے تا کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ ۔یا اس میں ہمیشہ رہنے والے نہ بن جاؤ  اور  قسمیں  کھانے لگا ان کے سامنے کہ میں یقینا تمہارا خیر خواہ ہوں آخر  اس نے دھوکہ دے کر  ان کو    پھسلا لیا تو   جو نہی انہوں نے وہ درخت چکھا تو ان کی شرم گا ہیں ان کے لیے ظاہر   ہوگئیں اور وہ  مارے شرم کے جنت کے درختوں کے پتوں کو اپنے اوپر   چپکانے لگے ان کے رب نے ان کو آواز دی کیا میں نے تم کو اس درخت سے روکا نہیں تھا اور کہا نہیں تھا کہ یقینا شیطان تمہارا   دشمن ہے۔


اب وہ دونوں لگے التجائیں کرنے کے "اے رب ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے( اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور رحم نہیں کرے گا تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے"


 اللہ تعالی نے فرمایا :تم اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے  دشمن ہو اور تمہیں زمین میں رہنا ہے اور ایک وقت تک نفع اٹھانا ہے۔



۔ "اسی زمین سے پیدا کیا ہم نے تم کو وہ اسی میں لوٹا  ئیں گےہم  تم کو اسی زمین سے دوسری مرتبہ ہم تم کو باہر نکالیں گے"



"اور ہم نے انسان (آدم) کو  کھنکھناتےکالے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ۔اور جان (یعنی جنوں کے باپ )کو ہم نے اس سے پہلے ہی آگ سے پیدا کیا ۔اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ بے شک میں آدمی کو کھنکھناتے کالے سڑے ہوئے  کیچڑ سے پیدا کرنے والا ہوں پس جب میں ان کو پورا بنا لو وہ ان میں (اپنی پیدا کی ہوئی) روح پھونک دوں تواس کے لئے سجدہ میں گر جانا'پھر جب فرشتے نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کیا کہ وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ شریک ہوا ۔اللہ تعالی نے ابلیس سے کہا اے ابلیس تو سجدہ کرنے والوں میں شریک کیوں نہ ہوا۔ اس نے کہا میں اس انسان کو سجدہ نہیں کر سکتا  جس کو تونے بچنے والی کالی بدبودار مٹی سے پیدا کیا ہے اللہ تعالی نے فرمایا تو نکل جا تو   راندہ  ہوا ہے اور بیشک قیامت کے دن تک تجھ پر لعنت ہے اس نے کہا اے میرے رب مجھے  کل تک مہلت دیدے  جب لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ اللہ تعالی نے فرمایا   تو معلوم دن تک مہلت دئیے ہوؤں  میں سے ہے ۔اس نے کہا  میرے رب چونکہ تو نے مجھے گمراہ کر دیا ہے اس لئے  میں زمین میں ان کے اعمال بد ان کو  خوبصورت کر کے دکھاؤں گا ان سب کو ضرور گمراہ کروں گا مگر ان میں سے تیرے مخلص بندے (میرا  ان پر بس نہیں چل سکے گا ) اللہ تعالی نے فرمایا : یہی مجھ پر سیدھا راستہ ہے بےشک میرے بندوں پر تیرے لیے کوئی غلبہ نہیں ہوگا ۔مگر وہ گمراہ لوگ جو تیری پیروی کریں گے (ان پر تیرے  بہکاوے  کا اثر ہوگا)  اور بےشک ان سب کے لئے جہنم کا وعدہ ہے ان کے سات  دروازے ہیں ہر دروازے  کے لئے ان کا ایک حصہ تقسیم کیا ہوا ہے۔




"اور جب ہم نے فرشتوں سے کہاکہ آدم کو  سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے سجدہ نہیں کیا' اس نے کہاکیا میں  اس (آدم) کو سجدہ کروں جس کو تم نے مٹی سے پیدا کیا ہے ؟پھر ابلیس نے کہا اچھا دیکھ لے تو نے اس کو مجھ پربزرگی تو دے دی۔ اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دے دی تو میں ضرور ان کی اولاد کی جڑ کاٹ ڈالوں گا( تباہ کر دوں گا) مگر تھوڑے لوگ( مجھ سے بچ سکیں گے) اللہ نے فرمایا پس ان میں سے جس نے تیری پیروی کی تو تم سب کی سزا جہنم ہے ۔پوری پوری سزا ہے۔ اور  ان میں سے  جسکو بہکا  سکتا ہے اپنی آواز کے ساتھ ان کو بہکا ان پر اپنے پیادے اور  سوار لشکر    چڑھا (ہر طرح سے  پورا زور لگا کے بہکا لے) اور  مال و اولاد میں ان کا شریک بند ان سے (جھوٹے) وعدے کر ان کو دھوکہ دینے کے لئے ہی شیطان وعدے کرتا ہے۔ بے شک میرے مخلص بندوں پر تیرے لئے کوئی غلبہ نہیں ہوگا ۔اورتیرا رب کام بنانے والا کافی ہے





اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کے آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے (انکار کیا )وہ جنوں میں سے تھا پس اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی پس کیا تم اس کو اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارا دشمن ہے ظالموں کے لیے یہ بڑا بدلہ ہے (کہ  اللہ  کو چھوڑ کر شیطان کو دوست  بنا لیا"۔





"اور تحقیق ہم نے آدم علیہ السلام سے وعدہ لیا تھا اس سے پہلے تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں مضبوطی نہیں پائی اور جب ہم نے کہا فرشتوں کو آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے انکار کیا تو ہم نے آدم سے کہا کہ یہ تیرا اور  تیری بیوی کا دشمن ہے ایسا نہ ہو کہ تم کو جنت سے نکال دے پھر تو کسی آفت میں پھنس جائے - اور یہاں جنت میں تو تیرے لیے یہ فائدہ ہے کہ نہ تو بھوکا  رہتا ہے ورنہ ننگااور نہ اس میں پیاسا رہتا ہے  ااور نہ  دھوپ میں جلتا ہے پس شیطان نے ان کو   پھسلایا اور اس نے کہا کہ اے آدم میں تجھے وہ درخت بتاؤں  جو ہمیشہ کا ہوا  اورمالک ایسا ہے جو کہ ختم نہ ہو تو ان دونوں نے اسے کھا لیا ۔پس ان دونوں کی شرمگاہیں  ان کے لیے ظاہر ہوگئیں-اور  وہ جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے  لگے اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس وہ بھٹک گیا پھر اس کے رب نے اس  کو سرفراز کیا اور اس کی توبہ قبول کی اس کو ہدایت دی۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم سب اس سے اتر جاؤ  تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایات آۓ  پس جس نے میری ہدایت کی پیروی کی وہ گمراہ نہیں ہوگا اور تکلیف نہیں پائے گا اور جس نے میرے ذکر سے منہ پھیر لیا تو اس سے تنگ زندگی ہوگی اور ہم اس کو اٹھائیں گے قیامت کے دن اندھا کرکے ا۔وہ کہے گا کہ اے میرے رب تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا حالانکہ میں  دیکھنے والا تھا۔ اللہ تعالی فرمائے گا کہ اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں تو تو نے ان کو بھلا دیا اسی طرح آج تجھے بھلا دیا گیا ہے"۔




آپ  ﷺ نے  فرما دیں کہ وہ ایک بڑی خبر ہے تم اس سے منہ موڑ رہے ہو مجھے اوپر والے فرشتوں کے متعلق کچھ علم نہیں ہے جب وہ جھگڑنے لگیں ۔  میری طرف   وحی نہیں کی جاتی  مگر صرف اس لئے کہ میں تو صاف ظاہر ڈرانے والا ہوں ۔ جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے ایک انسان بنانے والا ہوں پس جب میں ان کو پورے طور پر تیار کرلو  اور اس میں روح پھونک دوں تو اس کے لیے سجدہ میں گر جانا پس تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے تکبر کیااور  وہ کافروں میں سے ہوگیا ۔اللہ تعالی نے فرمایا اے  ابلیس تجھے کس چیز نے روکا کہ  تو اس آدم  کے لئے  سجدہ  میں گرے  جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ۔ کیا تم نے تکبر کیا ہے یا تو بلندمرتبہ والوں سے ہے ۔ اس ابلیس نے کہا کہ میں ان سے بہتر ہوں مجھے  تو نے  آگ  سے پیدا کیا ہے اس کو تو نے مٹی سے بنایا۔
                                                                                                                                                                                                           
اللہ تعالی نے فرمایا کہ اب تو اسے جنت سے نکل جا کیونکہ تو میری درگاہ  سےراندہ گیا ہے ہو تجھ پر میری لعنت ہے قیامت کے دن تک۔ ابلیس نے کہا اے میرے رب اس دن تک مجھے ڈھیل دیدے جس دن کو لوگ اٹھائے جائیں گے 'اللہ نے فرمایا کہ تو معلوم دن تک مہلت دئیے  گے لوگوں میں سے ہے ۔ابلیس  نے کہا اب مجھے تیری عزت کی قسم ہے کہ میں ان  سب کو  ضرور گمراہ کروں گا۔ لیکن ان میں سے تیرے مخلص بن(کہ وہ میرے  بہکاوے میں نہیں آئیں گے) اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ بات سچ ہے اور میں سچ بات ہی کہتا ہوں کہ میں تجھ سے اور  تیری پیروی کرنے والے لوگوں سے جہنم کو بھر دوں گا آپ فرما دیں کہ میں اس پر آپ لوگوں سے کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں تکلیف کرنے والوں میں سے ہو (کہ کوئی بات اپنی طرف سے بنا لوں) یہ تو تمام جہاں والوں کے لیے ایک نصیحت ہے اور کچھ مدت بعد  تمہیں اس کی حقیقت ضرور معلوم ہو جائے گی۔


قرآن کے مزکورہ  متفرق مقامات پر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا تذکرہ ہوا ہے تفسیر میں (جو کہ تفسیر ابن کثیر کے نام سے مشہور ہے) ان آیات کے متعلق تفصیلی بحث کی ہے اور ہم اس جگہ ایک مفہوم و مقصود کا ذکر کریں جس پر مندرجہ بالا آیات دلالت کرتی ہیں اور رسول  اللہ ﷺ  سے مروی  ان  احادیث کو نقل کریں گے جو اس قصہ سے تعلق رکھتی ہیں اور اللہ تعالی ہمارے اس معاملہ میں مدد فرمانے والا ہیں ۔
   اللہ تعالی  نے فرشتوں کو مخاطب کرتے ہوئے خبردی آگاہ کیا کہ

کہ میں آدم اور اس کی اولاد کو پیدا کرنے والا ہوں جو ایک دوسرے کے بعد جانشین و خلیفہ بنیں گے 'اس کا تذکرہ سورۃ انعام
 میں اس طرح فرمایا ہے:
"اللہ تعالی وہ ذات ہےجس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے"


 اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ:

"وہ تم کو زمین میں خلیفے بنا تا ہے"


حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی پیدائش کا ذکر اللہ تعالی نے فرشتوں کے سامنے ان کی عظمت شان کے اظہار کے لئے کیا ہے 
جیسے کسی اہم ہو بڑے کام سے متعلق اس کے سرانجام دینے سے پہلے اس کی خبر دی جاتی ہے ۔



باقی فرشتوں کا یہ کہنا:



    تویہ بطور  اعتراض یا حسد یا اولاد آدم کو حقیر سمجھنے کی وجہ سے نہ تھا  جیسا کہ بعض جہلاء مفسرین  کو اس جگہ وہم ہواہے  کہ فرشتوں نے تخلیق آدم پر اعتراض کیا تھا یا وہ حسد کی بناء پر کہا تھا یا آدم کی اولاد کو اپنے سے حقیر سمجھتا تھا۔ فرشتے تو ان سب باتوں سے پاک ہے بڑی ہیں بلکہ صرف اعظم کی پیدائش کی حکمت معلوم کرنے کی غرض سے یہ کہا تھا۔

 اور حضرت قتادہ   رضی تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ چونکہ بنی آدم سے پہلے جنات آباد تھے اور انہوں نے زمین میں خونریزی اور فسادکرتے تھا اور فرشتوں کو یہ معلوم تھا اسی لئے انہوں نے خون خرابہ کی بات کہی تھی۔ وہ حضرت عبداللہ بن عمررضی تعالی عنہ فرماتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام سے دو ہزار برس پہلے زمین میں آباد تھے اور انہوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا تھا تو اللہ تعالی نے ان کو سرکوبی کے لیے فرشتوں کی ایک جماعت کو بھیجا تھا تو فرشتوں نے ان کو سمندروں اور جزیروں کی طرف بھگا دیا حضرت ابن عباس رضی تعالی عنہ بھی یہی فرماتے ہیں: حضرت حسن فرماتے ہیں کہ فرشتوں کو اس بات کا الہام ہوا تھا اور بعض کی رائے یہ ہے کہ انہوں نے لوح محفوظ سے معلوم کر لیا تھا ۔ایک رائے یہ ہے کہ ہاروت و ماروت نے السجل نامی ایک فرشتے سے یہ معلوم کرکے ان کو اطلاع دی اور  یہ  قول ابن  ابی حاتم نے ابو جعفر باقر سے ذکر کیا ہے کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ فرشتوں نے یہ بات اس لئے کی تھی کہ ان کو معلوم تھا کہ مٹی سے پیدا کردہ عام طور پر ایسی کیفیت و حالت میں ہوتا ہے اگر بنی آدم کو پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ تیری عبادت کریں گے تو ہم دن رات مسلسل آپ کی عبادت میں مصروف ہیں ہم میں سے کوئی ایک بھی تیری نافرمانی نہیں کرتا اس لیے کہا کہ

تو اللہ تعالی نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا



یعنی ان کے پیدا کرنے کی حکمت و مصلحت  مجھے معلوم ہے تم اس سے بے خبر ہو وہ حکمت یہ تھی کہ ان میں انبیاء اور رسول علیہ السلام 

وصادیقین و شہداء صالحا ء پیدا ہوں گے۔


   




حضرت آدم علیہ السلام کی شرف کا اظہار

اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کا شرف و مرتبہ علم کے ذریعہ سے فرشتوںپر ظاہر فرمایا جیسا کہ کلام پاک کی آیات : 



 سے   ظاہر  ہوتا ہے اسماء کی تفصیل کے متعلق حضرت ابن عباس رضی تعالی عنہ کا فرمان ہے کہ


سے مراد  وہی نام ہیں  جو لوگوں کے درمیان بول چال میں معروف و  مشہور ہیں جیسے کہ انسان 'جانور' زمین' میدان 'سمندر' پہاڑ اونٹ 'گدھا وغیرہ۔
 حضرت مجاہد رضی تعالی عنہ فرماتے ہیں  کہ پیالہ' ہنڈیا وغیرہ کے نام سکھائے حتی کہ پھسکی اور  گوز کا نام بھی بتایا  اور مجاہد نے مزید فرمایا ہر جانور پرندے چرندے  اور دنیا میں ضرورت کی ہر چیز کے نام سے سکھائے  اور  اسی طرح کہا کہ سید بن جبیر   قتادہرضی تعالی عنہ   نےحضرت ربیع فرماتے ہیں کہ فرشتوں کے نام سکھائے عبدالرحمٰن بن زید نے کہا کہ آدم کو اس کی اولاد (کے نام سے سکھائے لیکن صحیح  تر بات یہ  ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا کی ہر چھوٹی بڑی چیز ان کے افعال و خواص  کے نام سکھائے تھے تاکہ وہ ان سے بھرپور 
طریقہ سے فائدہ اٹھائیں اور حضرت ابن عباس رضی تعالی عنہ نے اسی مفہوم و تفصیل کی طرف اشارہ کیا  ہے۔


امام بخاری ؒنے یہی ایک روایت ذکر کی ہے جس کو بخاری ہو مسلم دونوں نے روایت کیاہے کہ حضرت انس بن مالکرضی تعالی عنہ  روایت کرتے ہیں کہ جناب ملک کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن مؤ منین اکٹھے ہوں گے وہ کہیں گے کہ کاش ہم کوئی سفارش کرنے والا تلاش کریں  پھر وہ حضرت  آدمؑ کے پاس آئیں گے  اے آدم  تو ابوالبشرہے  اللہ عزوجل نے اپنے ہاتھوں سے تجھے بنایا فرشتوں سے تجھے 
سجدہ کرایا  اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے اس طرح باقی اہل محشر بھی یہی کہیں گے۔


حضرت حسن بصری ؒفرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں نے کہا کہ اللہ تعالی جو بھی مخلوق پیدا کرے گا ہمارا علم اس سے زیادہ ہوگا اس بات کی وجہ سے اللہ نے ان کو آزمائش میں ڈال دیا اور فرمایا :
اگر تم اپنی اس بات پر سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ اس بارے میں اس کے علاوہ اور بھی اقوال مو جودہے جن کو ہم نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے تو فرشتوں نے عاجز ہو کر درخواست کی تو جواب میں کہا کہ:


: کہنے لگے اے اللہ تو پاک ہے اس سے کہ تیرے سکھائے بغیر کسی کو کچھ علم ہو جائے جیسے کہ اللہ تعالی نے دوسرے مقام پر فرمایا


وہ اس کے علم سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جس کو وہ چاہے اور جتنا چاہے۔



یعنی جیسے میں ظاہر چیزوں کو جانتا ہوں اسی طرح مجھے ہر پو شیدہ چیز کا بھی علم ہے ۔اور اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ تمہاری ظاہری چیزوں کا علم ہے۔سے  مراد فرشتوں کی یہ بات 


ہے کہ تو زمین میں فساد کرنے والوں کو بنانا چاہتا ہے۔


وما  تکتمون  سے مراد ابلیس کا اپنے دل میں آدم پر اپنی بڑائی  اور  افضلیت کو چھپانا مراد ہے یہی قول سعید بن جبر' مجاہد' صدی' سحاق 'اور سفیان ثوری  رحمہم  اللہ کا  ہےاور   جریرؒنے بھی اس کو    اختیار فرمایا ہے۔


 اور         


سے مراد یہ بھی ہے جو فرشتوں نے کہا کہ اللہ تعالی جو بھی محلوق پیدا کرے گا ہمارا  علم اور شرف و مرتبہ بھی اس سے زیادہ ہوگا
 اللہ تعالی نے فرمایا:



کہ میں جب اس کو اچھی طرح بنا لو وہ اس میں اپنی روح  ڈال دوں   تو تم اس کے لئے سجدہ کرتے ہوئے گر جانا اس آیت میں حضرت آدم علیہ السلام کا شرف اور مرتبہ چار لحاظ سے ظاہر ہو رہا ہے۔

 (ا)ا   للہ تعالی نے اس کو اپنے ہاتھوں سے بنایا         

(2)اس میں اپنی روح  ڈالی

 (3) فرشتوں کو اس کے لئے سجدہ کرنے کا حکم بھی ہے

 (4)ا ور اس کو تمام اشیاء کے نام بتائیں
 

 اس طرح جب حضرت موسٰی کلیم اللہ علیہ السلام کی ملا ء اعلی میں حضرت آدمؑ سے ملاقات ہوئی اور ان کا آپس میں بحث و مناظرہ ہوا تو اس موقع پر حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا تھا تو آدم البشر ہے تجھے اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ سے بنایا تیرے اندر اپنی روح پھونکی تجھے فرشتوں سے سجدہ کروایا اور آپ کو اللہ تعالی نے تمام چیزوں کے نام سکھائے ۔اور اسی طرح  قیامت کے دن میدان حشر میں جب لوگ اکٹھے ہو کر حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ لوگ یہی بات ان سے کہیں گے۔ جیساکہ پہلے گزرچکا ہے اور آگے بھی آرہا ہےان شاء اللہ 
 ۔ جیسا کہ میں قرآن دوسرے مقام پر فرمایا کہ


حضرت امام حسن البصری فرماتے ہی کہ ابلیس  نےقیاس  کیا اور وہ    سب سے پہلے قیاس  کرنے والا ہے اور محمد بن سیرین فرماتے ہیں کی سب سے  پہلے  قیاس  ابلیس نے کیا اور اس قیاس   کی وجہ سے سورج اور چاند کے عبادت کی گئی
 اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے اور آدم علیہ السلام کے درمیان قیاس  کرتے ہوئے اپنے اوپر غور کیا تو اپنے آپ کوافضل اور  سجدہ کرنےسے رک  گیا جب کہ اس کو اور تمام فرشتوں کو سجدہ کرنے کا  حکم تھا ۔قیاس  جب نفس کے معاملے میں ہوتو درجہ اعتبار سے گر جاتا ہے  اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ قیاس صحیح نہیں ہے کیونکہ مٹی آگ سے زیادہ  مفید اور بہتر ہے کیونکہ مٹی میں عاجزی انکساری حلم  و بردباری نمودار  اور زرخیزی جیسی صفات پائی جاتی ہے جبکہ آگ میں  طیش تیزی ہو جلا کر  خاکستر  کرنا ہے اس پر مزید یہ کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم کو اپنے ہاتھ سے بنانے اپنی روح اس میں پھونکنے فرشتوں کو اس کے سجدہ کرنے کا حکم دے کر شرف فضیلت کا اعزاز بخشا 
جیساکہ سورۃ الحجر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا


ابلیس لعنت کا حقدار اس لیے بنا کہ اس نے آدم علیہ السلام کو ذلیل و حقیر سمجھا۔ اس کا اپنے آپ کو  بڑا سمجھنا حکم الٰہی کی مخالفت اور حق کے ساتھ  عناد تھا۔کیونکہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم اللہ تعالی نے واضح طور پر دیا تھا ۔اور  سجدہ سے  انکار کے بعداولاد آدم کو ورغلانے اور  بہکانے کا ارادہ عزم پہلے گناہ سے بھی بڑھ کر تھا۔ 


جیسے کہ اللہ تعالی نے سورۃ الاسراء میں ارشاد فرمایا


اور جب ہم نے فرشتوں کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو پس انہوں نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے۔  اس نے کہا کہ میں اس کو سجدہ کروں جس کو تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے اور جس کو تو نے مجھ پر عزت دی ہے اگر تو نے مجھے  قیامت کے دن تک مہلت دے دی تو میں اس  کی اولاد کو ہلاک کر دوں گا۔ لیکن تھوڑے لوگ کہ وہ مجھ سے محفوظ رہیں گے اللہ تعالی نے فرمایا دور ہو جا ان میں سے جس نے بھی تیری پیروی کی تو جہنم تمہاری پوری پوری سزا ۔ ا ور  ان میں سے جس کو تو پھسلا سکتا ہے اسے اپنی آواز کے ساتھ پھسلا اور  اپنے سواراور  پیادہ لشکر   ان کے خلاف  اکٹھے کراور  ان کے اموال و اولاد میں ان کا شریک بن  اور ان کو وعدہ دے اور  نہیں وعدہ دیتا شیطان ان کو مگر صرف دھوکہ دینے کے لیے بے شک میرے بندوں پر تیرے لیے کوئی غلبہ نہیں ہوگا  اور تیرا رب کارساز ہے
 سورۃ  کہف میں اللہ عزوجل نے فرمایا
 جب ہم نے فرشتوں کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہ کیا وہ جنوں میں سے تھا اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی کیا  تم  اسےاور اس کی  اولاد  کو میرے سوا دوست بناتے ہو ۔
یعنی وہ جان بوجھ کر تکبر کرتے ہوئے اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری سے کنارہ کش ہوگیا وہ اپنی فطرت کی حالت کو برے مادے کی وجہ سے بغاوت کی طرف مائل ہوا کیونکہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے آگ کے اندر سرکشی طیش  وہ جوش ہوتا ہے جیسے کہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ارشاد فرمایا فرشتے عرش کے نور سے پیدا ہوئے ہیں اور جن آگ کے شعلے سے اور آدم جس مٹی سے پیدا ہوا اس کی وضاحت تہمارے لئے کر دی گئی ہے۔
 امام حسن بصری ؒنے فرمایا کہ ابلیس ایک لمحے کیلئے بھی فرشتوں میں سے نہیں تھا اور شہر بن حوشب فرماتے  ہیں وہ جنوں میں سے تھا جب انہوں نے زمین میں فساد برپا کیا تو اللہ تعالی نے ان کی طرف فرشتوں کا ایک گروہ بھیجا تو انہوں نے جاکر کچھ کو قتل کیا کچھ کو سمندروں کے جزیروں کی طرف دھکیل دیا ابلیس کو قید کرلیاگیا فرشتے اس کو آسمان کی طرف لے گئے تووہ  وہاں ٹھہرا رہا اور جب فرشتوں کو آدم کے لیے سجدہ  کرنے کا حکم ہوا تو ابلیس نے سرکشی کی سجدہ کرنے سے انکار کر دیا
 حضرت ابن مسعود رضی تعالی عنہ حضرت ابن عباس رضی تعالی عنہ  اور دیگر صحابہ کی جماعت   اور سعید بن مسیّب  اور دیگر اہل علم نے کہا ہے کہ ابلیس آسمان دنیا میں فرشتوں کا سردار تھا حضرت ابن  عباس رضی تعالی عنہ  فرماتے ہیں ان کا نام عزازیل تھا اس روایت کے مطابق حارث نام تھا ۔النقاش نے  کہا کہ اس کی کنیت ابو کردوس تھی اور ابن عباس رضی تعالی عنہ  سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ فرشتوں کی ایک جماعت میں سے تھا جس کو جن کہتے ہیں۔ یہ جنوں کے نگران تھے ابلیس ان کاسردار اور  علم و فضل اور عبادت میں ان سب سے برتر تھا اور چار پروں والا تھا۔ اللہ تعالی نے اس کو اس کے مکر  اور حسد کی  وجہ سے شیطان ومردود بنا دیا۔
  
 سورۃ ص میں اللہ تعالی نے فرمایا 


اور اس وقت  کو یاد کرو کہ جب تیرے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے ایک انسان بنانے والا ہوں جب میں اس کو اچھی طرح بنالوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے لئے سجدہ میں گر جانا پس سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا۔  اس نے تکبر کیا اورکافروں  میں سے ہوگی۔ اللہ تعالی نے فرمایاکہ  اے ابلیس  تجھے کس چیز نے روکا تھا کہ تو اس آدم کو سجدہ کرے جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا  تو نے تکبر کیا یاتو  بلند مرتبہ  والوں میں سے ہے اس نے کہا کہ میں اس سے  بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے بنایا۔
  اللہ تعالی نے فرمایا کہ تو اس جنت سے نکل جا بے شک  تو راندہ  ہوا ہے اور قیامت والے دن تک تجھ پر میری لعنت ہے اس نے کہا کہ اے میرے رب ان کو دوبارہ اٹھائے جانے تک مجھے مہلت دے ۔اللہ تعالی نے فرمایا کہ وقت معلوم کے  دن تک تجھے مہلت ہے اس نے کہا اے رب مجھے تیری عزت کی قسم میں ان تمام بنی آدم کو  ضرور گمراہ کروں گا مگر ان میں سے جو تیری مخلص بندے ہیں وہ محفوظ رہیں گے اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ بات سچ ہےاور  میں بھی سچ  بات ہی کرتا ہوں کہ ضرور تجھ سے اور  تیرے پیروکاروں سے جہنم کو بھر دوں گا۔

 اور سورۃ اعراف  میں اللہ تعالی نے   فرمایا



شیطان نے کہا چونکہ تو نے مجھے گمراہ کر دیا ہے اس لئے میں بھی ان کو گمراہ کرنے کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں  گا پھر ان کے  پاس ان کے آگے اور پیچھے سے آؤں گا ان کے دائیں اور بائیں طرف  سے آؤں گا  پھر تو ان میں بہت سوں  کو اپنا شکر گزار نہیں پائے گا یعنی اس سبب سے کہ تو نے مجھے گمراہ کر دیا ہے میں ان کے لئے ہر گھاٹ کی جگہ پر بیٹھوں گا اور ان کے پاس ہر  جہت  ہر طرف سے آؤں گا ۔اور پوری کوشش کروں گا ان کو بہکانے کی اب وہ آدمی نیک بخت ہے جو ابلیس  کی مخالفت کرے اور وہ  جو اس کے پیچھے لگے وہ بدبخت ہے۔
 اور امام احمد  نے سیرۃ بن ابی الفاکہ  سے راویت کی ہے  کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا شیطان ابن آدم کے لیے اس کے راستوں پر بیٹھا ہے۔

 سجدہ کا  حکم کن فرشتوں کو دیا گیا

مفسرین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم کن فرشتوں کو دیا گیا ۔جمہور علماء کی رائے  یہ ہے  کہ تمام فرشتوں کو سجدہ  کرنے کا تھا آیت کے عمومی الفاظ بھی اس پر دلالت کرتے ہیں اور  کچھ کی رائے  یہ  ہے کہ زمین والے  فرشتوں کو حکم دیا گیا تھا اور  یہی روایت ابن جریر  نے حضرت ابن عباس رضی تعالی عنہ  سے نقل کی ہے لیکن یہ روایت منقطع  اور منکر ہیں۔اس رائے کو اگرچہبعض متاخرین  نے راجح اور وزنی  قرار دیا ہے لیکن پہلی رائے زیادہ واضح ہے تو اس پر  اس حدیث



اس نے  اپنے فرشتوں سے اسے سجدہ کروایا کا عموم  بھی دلالت کرتا ہے۔


Land visit by Hazrat Adam

Ads go here

Comments

Spread the Islam

Archive

Contact Form

Send